Tuesday, October 22, 2013

0 Comments
Posted in Arrangement, Art, Business


ایک صاحب اپنے سات یا آٹھ سالہ بچے کو موٹر بائیک کے آگے بیٹھا کر تیزی سے سڑک کا موڑ کاٹتا ہے کہ یکا یک سامنے سے ایک گاڑی والا آجاتا ہے ۔۔ موٹر سائیکل والا بہت تیز تھا لیکن گاڑی والے نے بہت ہمت کر کے اپنی گاڑی کو بریک لگائی ، پھر بھی اس ایمرجنسی بریک میں بائیک والے کی ایک ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئی اور وہ گرتے گرتے بال بال بچا ، ١٠ قدم پر جاکر اُس نے بائیک روک لی بچے کو وہیں بیٹھا رہنے دیا ) جو قدرے خوف ذدہ ہو گیا تھا ، اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا والد اُسے چھوڑ کر جائے ( ۔۔ بائیک والے نے آتے ہی گاڑی والے کے گریبان کو پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا ،، اور اُسے گالی گلوچ کرنے لگ گیا ۔۔۔۔ گاڑی والا جو بہت دھیما بھلا مانس انسان لگ رہا تھا ، اُس بائیک والے سے کہنے لگا ۔۔““ غلطی تمہاری ہے ، تمہیں موڑ کاٹتے ہوئے بائیک کو آہستہ کرنا چاہے تھا ،، پھر بھی میں تم سے اُلجھنا نہیں چاہتا ۔۔

لیکن بائیک والا اُس سے لڑنے پر بضد تھا ۔۔۔ آخر کار گاڑی والے نے معاملہ ختم کرنے کے لئے وہ جملہ کہا جس نے معاشرتی اقدار میں پلتی ہماری نئی نسلوں کے زہنوں کا احاطہ کیا ہواہے ۔۔

““ دیکھو تمہارا بچہ تمہیں بڑے معصوم انداز سے دیکھ رہا ہے ۔۔ تم مجھ سے الجھو گے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچے گی ، میں اکیلا ہوں مجھے میرا کوئی نہیں دیکھ رہا ، لیکن تمہارے ساتھ تمہارا بچہ ہے اگر اُس نے آج تمہیں مجھ سے مارکھاتا دیکھ لیا تو اُس کے دل میں تمہارے لئے ““ہیرو “ کا کردار ختم ہو جائے گا ۔۔

اُس کی سوچ کہ تم اُس زندگی میں سب سے بڑا سہارا ہو ختم ہو جائے گی ، جو اس کے بچپن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔۔۔““

بائیک والے کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اُس نے گاڑی والے کے کپڑے جھاڑتے ہوئے معافی مانگی اور واپس بائک پر آکر اپنے بچے کو پیار کرنے لگا ““ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ““

اس دانشمندی سے اُس بائیک والے نے بچے کے دل میں ““ ہیرو ““ کو مرنے نہیں دیا ۔
0 Comments
Posted in Arrangement, Art, Business

ہیرو
ایک صاحب اپنے سات یا آٹھ سالہ بچے کو موٹر بائیک کے آگے بیٹھا کر تیزی سے سڑک کا موڑ کاٹتا ہے کہ یکا یک سامنے سے ایک گاڑی والا آجاتا ہے ۔۔ موٹر سائیکل والا بہت تیز تھا لیکن گاڑی والے نے بہت ہمت کر کے اپنی گاڑی کو بریک لگائی ، پھر بھی اس ایمرجنسی بریک میں بائیک والے کی ایک ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئی اور وہ گرتے گرتے بال بال بچا ، ١٠ قدم پر جاکر اُس نے بائیک روک لی بچے کو وہیں بیٹھا رہنے دیا ) جو قدرے خوف ذدہ ہو گیا تھا ، اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا والد اُسے چھوڑ کر جائے ( ۔۔ بائیک والے نے آتے ہی گاڑی والے کے گریبان کو پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا ،، اور اُسے گالی گلوچ کرنے لگ گیا ۔۔۔۔ گاڑی والا جو بہت دھیما بھلا مانس انسان لگ رہا تھا ، اُس بائیک والے سے کہنے لگا ۔۔““ غلطی تمہاری ہے ، تمہیں موڑ کاٹتے ہوئے بائیک کو آہستہ کرنا چاہے تھا ،، پھر بھی میں تم سے اُلجھنا نہیں چاہتا ۔۔

لیکن بائیک والا اُس سے لڑنے پر بضد تھا ۔۔۔ آخر کار گاڑی والے نے معاملہ ختم کرنے کے لئے وہ جملہ کہا جس نے معاشرتی اقدار میں پلتی ہماری نئی نسلوں کے زہنوں کا احاطہ کیا ہواہے ۔۔

““ دیکھو تمہارا بچہ تمہیں بڑے معصوم انداز سے دیکھ رہا ہے ۔۔ تم مجھ سے الجھو گے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچے گی ، میں اکیلا ہوں مجھے میرا کوئی نہیں دیکھ رہا ، لیکن تمہارے ساتھ تمہارا بچہ ہے اگر اُس نے آج تمہیں مجھ سے مارکھاتا دیکھ لیا تو اُس کے دل میں تمہارے لئے ““ہیرو “ کا کردار ختم ہو جائے گا ۔۔

اُس کی سوچ کہ تم اُس زندگی میں سب سے بڑا سہارا ہو ختم ہو جائے گی ، جو اس کے بچپن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔۔۔““

بائیک والے کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اُس نے گاڑی والے کے کپڑے جھاڑتے ہوئے معافی مانگی اور واپس بائک پر آکر اپنے بچے کو پیار کرنے لگا ““ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ““

اس دانشمندی سے اُس بائیک والے نے بچے کے دل میں ““ ہیرو ““ کو مرنے نہیں دیا ۔
0 Comments
Posted in Arrangement, Art, Business


ہیرو
ایک صاحب اپنے سات یا آٹھ سالہ بچے کو موٹر بائیک کے آگے بیٹھا کر تیزی سے سڑک کا موڑ کاٹتا ہے کہ یکا یک سامنے سے ایک گاڑی والا آجاتا ہے ۔۔ موٹر سائیکل والا بہت تیز تھا لیکن گاڑی والے نے بہت ہمت کر کے اپنی گاڑی کو بریک لگائی ، پھر بھی اس ایمرجنسی بریک میں بائیک والے کی ایک ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئی اور وہ گرتے گرتے بال بال بچا ، ١٠ قدم پر جاکر اُس نے بائیک روک لی بچے کو وہیں بیٹھا رہنے دیا ) جو قدرے خوف ذدہ ہو گیا تھا ، اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا والد اُسے چھوڑ کر جائے ( ۔۔ بائیک والے نے آتے ہی گاڑی والے کے گریبان کو پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا ،، اور اُسے گالی گلوچ کرنے لگ گیا ۔۔۔۔ گاڑی والا جو بہت دھیما بھلا مانس انسان لگ رہا تھا ، اُس بائیک والے سے کہنے لگا ۔۔““ غلطی تمہاری ہے ، تمہیں موڑ کاٹتے ہوئے بائیک کو آہستہ کرنا چاہے تھا ،، پھر بھی میں تم سے اُلجھنا نہیں چاہتا ۔۔

لیکن بائیک والا اُس سے لڑنے پر بضد تھا ۔۔۔ آخر کار گاڑی والے نے معاملہ ختم کرنے کے لئے وہ جملہ کہا جس نے معاشرتی اقدار میں پلتی ہماری نئی نسلوں کے زہنوں کا احاطہ کیا ہواہے ۔۔

““ دیکھو تمہارا بچہ تمہیں بڑے معصوم انداز سے دیکھ رہا ہے ۔۔ تم مجھ سے الجھو گے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچے گی ، میں اکیلا ہوں مجھے میرا کوئی نہیں دیکھ رہا ، لیکن تمہارے ساتھ تمہارا بچہ ہے اگر اُس نے آج تمہیں مجھ سے مارکھاتا دیکھ لیا تو اُس کے دل میں تمہارے لئے ““ہیرو “ کا کردار ختم ہو جائے گا ۔۔

اُس کی سوچ کہ تم اُس زندگی میں سب سے بڑا سہارا ہو ختم ہو جائے گی ، جو اس کے بچپن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔۔۔““

بائیک والے کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اُس نے گاڑی والے کے کپڑے جھاڑتے ہوئے معافی مانگی اور واپس بائک پر آکر اپنے بچے کو پیار کرنے لگا ““ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ““

اس دانشمندی سے اُس بائیک والے نے بچے کے دل میں ““ ہیرو ““ کو مرنے نہیں دیا ۔
0 Comments
Posted in Arrangement, Art, Business


پَرانوں میں اس سٹرک کو اترپتھا (شمال کا راستہ) کہا جاتا ہے، کہ ہند سندھ کے شمال سے بنگال کے مغرب تک ایسا راستہ قریب قریب ایک عجوبہ تھا۔ پشتونوں کے فرید خان نے جب اپنا نام بدلا تو اس سٹرک کا نام بھی بدل گیا اور اسے راہ اعظم کہا جانے لگا۔ انگریز سرکار نے اس خطے اور اس سڑک پر توجہ دی ۔ فوجی رسد کا سامان یہاں سے وہاں آنے جانے لگا، تو یہ شاہراہ جرنیلی سڑک کے نام سے مشہور ہوئی اور بالآخر رڈیارڈ کپلنگ کی کہانیوں میں اسے Grand Trunk روڈ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
ایمن آباد سے تھوڑا آگے بائی پاس، اس سڑک کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں اور پھر رنجیت سنگھ کا گوجرانوالہ، Avitella (رنجیت سنگھ کا ایک جرنیل) کا وزیرآباد اور رام پیاری کا گجرات کہیں اندر ہی گم ہو جاتے ہیں۔ ترقی کا راستہ باہر ہی باہر فرنیچر کی بے حساب دوکانوں پر لا کھڑا کرتا ہے اور کھاریاں سے جی ٹی روڈ پھر جی ٹی روڈ بن جاتی ہے۔
اس ایک عالم پرانی شاہ راہ کے دونوں طرف یوں تو سربستہ سفید ے کے درخت، سی این جی کے پمپ اور انواع و اقسام کی دکانیں ہیں، مگر سڑک سے ذرا اتریں تو گویا آپ وقت کے پاتال میں اترنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کوٹھی شیخ نیاز احمد ایک ایسی سمے گپھا (WARP ZONE) ہے، جہاں وقت رُک کر سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔
وزیرآباد کے صدیوں پرانے شہر میں ثمن برج سے لے کر گروکوٹھہ تک ہر سو تاریخ ہی تاریخ بکھری ہے ۔ کہیں تو گزرا ہوا وقت شکست و ریخت کی چادر اوڑھ کے سو گیا ہے، مگر کہیں عہد رفتہ کے کچھ کچھ نشان اب بھی باقی ہیں۔ ضلع کچہری کے عین سامنے، سنگِ مرمر کے ایک تختے پر عارف شہید روڈ کے اشارے ملتے ہیں۔ اس سڑک پر چند سو میٹر چلیں تو سامنے کو ٹھی شیخ نیاز احمد واقع ہے۔ برطانوی راج کی نشانیوں کی مانند، اس عمارت کا ابتدائی تاثر مبہوت کن ہے۔
1929؁ء میں مکمل ہونے والی یہ عمارت اس وقت ایک لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی، جب ایک عام مزدور چار آنے اور راج مستری آٹھ آنے معاوضہ لیا کرتے تھے۔ 32 کنال کے رقبے پر محیط اس بنگلے سے زیادہ دل چسپ، بنگلے والوں کی کہا نی ہے۔
متحدہ ہندو ستان کے اس خطے میں دیوان سکندر لال داس اورگور بخش سنگھ جیسے ’’مایا داس‘‘ لوگوں کا ڈنکا بجتا تھا۔ مسلمان کاروبار میں خال خال ہی نظر آتے تھے۔ ان حالات میں شیخ نیاز احمد کا شمار صف اول کے تاجروں میں ہونا ایک منفرد بات تھی۔ برصغیر میں اس وقت چمڑے کے دو کارخانے (وزیرآباد اور کانپور ) ہوا کرتے تھے۔ شیخ نیاز احمد، انیسویں صدی کے آخر میں قائم ہونے والی Waziarabad Tannery کے مالک تھے۔ اس دور میں چمڑے کو قابل استعمال بنانے کے لیے درکا ر تمام کیمیکل برطانیہ سے برآمد کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں جب ضرورت نہ رہی تو شیخ نیاز احمد نے وہ لائسنس واپس کردیا۔ ملکہ برطانیہ نے ان کی اس ایمان داری سے خوش ہو کر انہیں طلائی گھڑی بھجوائی، جو آج بھی اس کوٹھی کے مکینوں کے پاس موجو د ہے۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں 1930؁ء کے وسط میں انہیں آنریری مجسٹریٹ بنایا گیا۔ آبادی کی اکثریت چوںکہ غریب تھی، لہذا آپ نے اپنے پورے دور میں نہ کسی کو جیل بھیجا او ر نہ ہی جرمانہ ادا کرنے دیا۔
ایک بار ایک انگریز افسرنے ڈپٹی کمشنر کو شیخ نیاز احمد کے خلاف درخواست دی کہ چمڑے کی بو سے اس کا جینا دوبھر ہو گیا ہے لہذا اس کارخانے کو کہیں اور منتقل کیا جائے۔ آپ کو لوگوں سے پتا چلا تو آپ نے کہا کہ اس گورے نے اپنے DC کو چٹھی لکھی ہے، میں اپنے رب کو عرضی ڈالوں گا۔ تین دن بعد وہ درخواست خارج ہوگئی ۔ فیض کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ وزیرآباد میں مقیم ایڈووکیٹ سلمان آصف نے بتا یا کہ کوٹھی والے (مقامی لوگوں میں اس خاندان کو کوٹھی والوں کے تعارف سے جانا جاتا ہے)، اب تک کوئی مقدمہ نہیں ہارے اور ایک طرح کی خوش بختی ہے، جو ہمہ وقت ان کے تعاقب میں رہتی ہے۔
وزیر آباد شہر سے باہر نظام آباد کی بستی ہے، جو اب اپنے چھری چاقوؤں کی نسبت مشہور ہے۔ اس علاقے کے لوگ، بلا تفریق مذہب، ضرورت کے اوقات میں شیخ نیاز احمد سے پیسے لے کر اپنے گھروں کی رجسٹریاں امانت رکھوا د یا کرتے تھے۔ اپنے انتقال سے قبل آپ نے وہ تمام رجسٹریاں منگوائیں اور جلا دیں۔
بتانے والے بتاتے ہیں کہ طب میں مہارت ا ور کلام الہیٰ کے کثرت سے ورد کی باعث جب بھی آپ کی سواری گھر سے نکلتی تو ہندو اور مسلمان آپ کو روک کر دم ؍ تعویز ؍ دوا کی درخواست کیا کرتے تھے۔ آپ کی تہجد گزاری اور تلاوت میں با قاعدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ ہر روز ایک سپارہ پڑھا کر تے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں جب بصارت جواب دینے لگی، تو آپ نے ایک حافظ صاحب سے درخواست کی جو ہر روز ایک سپارہ سنا جایا کرتے تھے۔ بیماری کے دنوں میں بھی یہ معمول جاری رہا اور آخری دن بھی سپارہ سنا۔ حافظ صاحب کے اصرار پر آپ کے جنازے کے ساتھ بھی معمول کا سپارہ پڑھا گیا۔
آپ کے انتقال کے موقع پر انگلستان کے اخباروں میں ایک سر خی لگی The King of Leather has Died ۔ بھٹو دور میں قومیائے جانے والے اداروں میں وزیرآباد ٹینری بھی شامل تھی۔
کوٹھی کے سب سے بوڑھے مکین نیاز احمد کے بڑے بیٹے ممتا زاحمد ہیں۔ شیخ ممتازاحمد فروری 1927؁ء میں پیدا ہوئے اور 2 سال بعد اس کوٹھی میں منتقل ہوئے۔ اس گھر میں آنے سے پہلے یہ لوگ ثمن برج میں رہا کرتے تھے۔ اسی گھر میں لیفٹیننٹ عارف کی ولادت ہوئی ۔ 1971 ؁ء کے فرید پور (بنگلا دیش) میں جوانسال لیفٹیننٹ عارف، اپنے دادا کا پاکستان سنبھالتے سنبھالتے کسی ایسے مشرقی پاکستانی کی گولی کا نشانہ بنا، جو اپنے دادا کا بنگال سنبھال رہا تھا۔
بیرونی پھاٹک پار کریں تو سب سے پہلے دائیں جانب سرونٹ کوارٹر ہے۔ محراب دار ڈیوڑھی کے پیچھے بنے وسیع کمروں پر مشتمل یہ حصہ، گھر سے علیحدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں یہ حصہ شہر میں تعینات جج صاحبان کی عارضی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ گھر میں پانی کی رسدو نکاس کا نظام، معمولی تبدیلیوں سے قطع نظر، اب تک وہی ہے جو 1929میں تھا۔
نالہ پلکھو میں آنے والے سیلاب میں وزیرآباد کے لوگ، ہر دوسرے تیسرے مون سون میں سامان چھتوں پر لے جاتے ہیں، مگر اس کوٹھی میں ابھی تک صرف 1971کے سیلاب کا پانی داخل ہو سکا ہے۔
پرکار سے کھینچے گئے نصف دائرے ایسے ڈرائیو وے پر پورچ ایستادہ ہے۔ اسی ڈیوڑھی سے اندر جانے والی سیڑھیاں، گھر میں داخل ہونے والے کو، وکٹورین طرز کے نو دروازے والی پہیلی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔
مرکزی دروازے سے ایک راہداری گھر کو چار برابر حصوں میں تقسیم کر تی ہے۔ اندر آتے ہی درجۂ حرارت میں ایک واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ اونچی چھتوں اور لمبی راہداریوں والے برآمدے دل آویز ہیں ۔ چھتوں سے آویزاں لمبے لمبے پنکھوں کی وجہ سے در ودیوار، ایئرکنڈیشن کی خاموش خنکی سے فی الحال نا آشنا ہیں۔ اس گھر میں بجلی پچاس سال پہلے آئی ۔ ممتاز صاحب کو گویا کل کا واقعہ لگتا ہے کہ بجلی آنے سے پہلے سیالکوٹ سے خاص طور پر کاریگر منگوائے گئے اور انہوں نے بجلی کی وائرنگ کی ۔ سولہ دسمبر 1958 ؁ء کو شیخ نیاز احمد نے اپنے ہاتھوں سے پہلا سوئچ آن کیا۔ یہ وائرنگ آج بھی استعمال ہورہی ہے۔ ان پنکھوں کی آمد سے پہلے گھر میں باقاعدہ لکڑی کے بڑے بڑے پنکھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مٹی کے تیل سے چلنے والا فریج بھی موجود تھا۔ گھر میں موجود فرنیچر کی تمام چیزیں اب بھی قابل استعمال ہیں ۔
اوپر جانے والی سیٹرھیوں پر لکٹری کے تختے چڑھے ہیں۔ سیڑھیوں سے باہر نکلنے پر کبوتروں کی بے تحاشا پھڑ پھڑاہٹ ہر نووارد کا استقبال کرتی ہے۔ چھت پر موجود تمام چمنیاں اب بھی دھواں اگلتی ہیں ۔ انہیں حشرات سے بچانے کے لیے ان کے ارد گرد جالی لپیٹی گئی تھی، جو اب تک قائم ہے۔ گھر کے اوپر والے حصے میں دیگ، کفگیر وغیرہ جیسی وہ تمام چیزیں موجو د ہیں، جن سے کسی تقریب کا اہتمام بہ آسانی ہوسکے۔ اس گھر کے مکین چوںکہ صرف دینے پر آمادہ اور مانگنے کے فن سے ناآشنا ہیں، سو انہوں نے یہاں تمام ضروریات زندگی کا اہتمام کر رکھا ہے۔ کوٹھی کی چھت سے شہر کا منظر اس قدر خوب صورت دکھائی دیتا ہے کہ گویا کسی نے وقت کی چرخی پچھلی طرف گھما دی ہو۔
گھر کے دوسرے حصے میں ڈرائنگ ہال ہے، جو بڑے اور اہم مواقع پر استعمال ہوتا ہے۔ مرکزی عمارت سے دائیں طرف اور سرونٹ کوارٹر سے پرے پرانے دور کا ایک باورچی خانہ ہے، جس کو اب بدل کر مہمان خانہ بنا دیا گیا ہے۔ کوٹھی کی دو سو سے زاید کھڑکیاں اور دروازے ہیں، جنہیں صبح کھولا اور شام کو بند کردیا جاتا ہے۔ زیر استعمال رہنے کی وجہ سے گھر کا کوئی کونا بھی عدم توجہی کا شکا ر نہیں ہے۔ مرکزی راہداری سے گزریں تو جلتی بجھتی چھوٹی چھوٹی بتیاں آپ کی نگاہیں تھام لیتی ہیں۔ Wi-Fi Deviceکے یہ رنگین جگنو، دراصل نئی نسل اور پرانی نسل کا نقطہ ء اتصال ہیں۔
احاطے میں موجود تمام درخت لگ بھگ 70 سال پرانے ہیں، مگر سب سے قدیم درخت ، بیرونی دیوار کے ساتھ ہے، جس کی عمر 100 برس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ برگد کا یہ درخت اور اس کے ساتھ گھوڑوں کی ناند، اس گھر کے بننے سے پہلے یہاں موجو د تھے۔ سڑک کی دوسری طرف موجود سو سے زاید جانور ابھی بھی اس خاندان کی چمڑے کے کاروبار سے وابستگی کی یاد دلاتے ہیں ۔
کوٹھی میں آنے والے قابل ذکر مہمانوں میں ڈسٹرکٹ جج ، انگریز افسر اور Lord Headley بھی شامل ہیں، جنہوں نے شیخ نیاز احمد کی زندگی میں یہاں قیام کیا۔
اچھے وقتوں میں یہ کوٹھی، شہر سے ذرا پرے نظام آباد کو جانے والے راستے پر بنائی گئی تھی، مگر آبادی کے عفریت نے آہستہ آہستہ اس کے گردا گرد بھی عمارتوں کا جنگل بُن دیا ہے۔ پاس پڑوس کے گھر اور ان کے شوخ رنگ، مکینوں کے بیرون ملک مقیم ہونے کا ثبوت ہیں، مگر رنگ و روغن سے عاری یہ کوٹھی گویا کسی مقامی روایت کی طرح ایک باوقار مگر اجلی سادگی میں ملبوس ہے۔
کوٹھی شیخ نیاز احمد، ڈاکیے کی یا دداشت سے اس طرح چپکی ہے جیسے دور دیس سے آنے والے ایئرمیل کے لفافے پر رنگین ٹکٹ ۔ ایکڑوں سے سرسائیوں تک یہ عمارت، قدامت کا طلسم ہوش ربا ہے۔ وقت جیسے ان دیواروں کو ٹٹول ٹٹول اور تھام تھام کر چلتا ہے۔ یہ وہ مکان ہے، جس میں نہ تو غلط پتے کی چٹھی آتی ہے، نہ ہی کوئی راستہ بھولتا ہے اور جو کوئی مسافر آ جائے تو مکین ایسے ہیں کہ اسے گھر کا فرد سمجھتے ہیں۔ سنت ابراہیمی پہ تیقن سے کاربند، خلوص میں بھیگے ہوئے یہ لوگ ، ہمہ وقت خوان بچھائے رب کی رحمت کا انتظار کرتے ہیں۔
0 Comments
Posted in Arrangement, Art, Business

مجرا کہانی




مجھے اس کا مجرا دیکھتے ہوئے مسلسل دسواں دن تھا۔ کیا غضب کی نئی چیز ہیرا منڈی میں آئی تھی۔ اس کا نام بلبل تھا۔ جب وہ ناچتی اور تھرکتی تھی تو جیسے سب تماش بین محو ہو جاتے۔ روزانہ اس کو ناچتا دیکھ کے میری شیطانی ہوس مزید پیاسی ہوتی جاتی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سے ضرور ملوں گا۔ میں ہر قیمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس دن مجرا کے دوران وہ بجھی بجھی سی دکھائی دے رہی تھی ۔ اس کے ناچ میں وہ روانی بھی نہیں تھی لیکن مجھے اس سے ملنا تھا، بات کرنی تھی اور معاملات طے کرنے تھے۔ مجرے کے اختتام پہ جب سب تماش بین چلے گئے تو میں بھی اٹھا۔ وہ کوٹھے کی بالکنی میں اپنی نائیکہ کے ساتھ کسی بات پر الجھ رہی تھی۔ دروازہ کے تھوڑا سا قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ اس سے رو رو کر کچھ مزید رقم کا مطالبہ کر رہی تھی۔ مگر نائیکہ اسکو دھتکار رہی تھی اور آخر میں غصے میں وہ بلبل کو اگلے دن وقت پہ آنے کا کہ کر وہاں سے بڑبڑاتی ہوئی نکل گئی۔بلبل کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، یہ جان کے میرے اندر خوشی کی اک لہر دوڑ گئی۔ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی کہ وہ ضرورت پوری کر کے میں اس کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہوں۔ میں اس کی جانب بڑھا، اس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور وہ برقعہ پہن رہی تھی۔ پاس جا کر جب میں نے اسے پکارا تو وہ میری طرف مڑی۔ اسکا چہرہ آنسووں سے تر اور برف کی مانند ایسے سفید تھا جیسے کسی نے اس کا سارا خون نکال لیا ہو۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر میں چکرا سا گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ وہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟
میری طرف دیکھتے ہوئے وہ چند لمحے خاموش رہی اور میرے دوبارہ پوچھنے پر گھٹی گھٹی آواز میں بولی "ماں مر گئی۔"
"کیا؟"
جب مجھے اسکی سمجھ نہیں آئی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے دوبارہ بولی کہ "آج میری ماں مر گئی۔"
اس جواب سے جیسے میرے منہ کو تالا لگ گیا۔ میری شیطانی ہوس، جس کو پورا کرنے کے لیے میں اس کی جانب آیا تھا، مجھ سے میلوں دور بھاگ گئی۔
"تو تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" میں نے غصے اور حیرت سے اس سے پوچھا۔
" کفن دفن کے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ اس لئے میں مجرا کرنے آئی تھی۔ مگر نائیکہ آج پیسے ہی نہیں دے رہی۔ کہتی ہے بہت مندی ہے۔ تماش بین کوٹھے پر نہیں آتے۔ جو آتے ہیں وہ پہلے کی طرح کچھ لٹاتے نہیں۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ایدھی والوں سے اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کروا لو۔"
اتنا کہہ کے وہ برقعہ پہن کر کوٹھے سے باہر نکل آئی۔
میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا،"میں تمھاری ماں کے کفن و دفن کا بندوبست کرتا ہوں۔"
وہ چند لمحے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر خاموشی سے میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی ٹیکسالی سے باہر نکالتے ہوئے میں نے بلبل سے اس کے گھر کا پتہ پوچھا۔ وہ علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا کئی بار میں وہاں سے گزرا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی اس طرف موڑ دی۔ سارا راستہ وہ خاموشی سے روتی رہی۔ میرے پاس اسکو تسلی دینے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔کچھ دیر میں ہم بلبل کے گھر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ایک کمرے کا گھر تھا۔ صحن کے بیچ میں چارپائی پر اسکی ماں کی لاش ایک گدلے کمبل میں لپٹی پڑی تھی۔ صحن میں بلب کی پیلی روشنی وہاں بسنے والوں اور گھر کی حالت چیخ چیخ کر عیاں کر رہی تھی۔ چارپائی کے پاس دو بوڑھی عورتیں بیٹھی تھی ۔ ایک کی گود میں سات آٹھ ماہ کا بڑا گول مٹول اور پیارا سا بچہ کھیل رہا تھا۔ آدھی رات ہونے کو آئی تھی۔ جیسے ہی بلبل گھر میں داخل ہوئی، وہ بوڑھی عورتیں بچہ اسے سونپتے اور دیر آنے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئیں۔ بلبل بچے کو لے کر کمرے کی طرف گئی۔ بچہ بہت بے قرار تھا اور پھر وہ اسکی چھاتی سے لپٹ گیا جیسے صبح سے بھوکا ہو۔
"کیا یہ بلبل کا بچہ ہے؟" یہ ایک نیا انکشاف تھا کہ بلبل شادی شدہ بھی ہے۔چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر آئی مجھے یونہی کھڑا دیکھ کر پھر کمرے میں گئی اور اک پرانی کرسی اٹھا لائی۔
"سیٹھ جی! معذرت۔ میرے گھر میں آپ کو بیٹھانے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔" وہ کرسی رکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔میں سر ہلاتے ہوئے اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہاں سے شروع کروں۔
"تمھارا اصل نام کیا ہے بلبل؟" بالآخر میں نے اس سے پوچھا ۔وہ چپ رہی شاید بتانا نہیں چاہ رہی تھی
افشاں"۔ میرے دوبارہ پوچھنے پر اس نے آہستہ سے کہا۔
" بہت افسوس ہوا تمھاری ماں کی وفات کا۔"
وہ خاموش رہی۔
"تمھارا باپ، بھائی کوئی ہے ؟"
اس نے خاموشی سے "نہیں" میں سر ہلایا۔
"یہ بچہ تمھارا ہے ؟"
اس نے پھر خاموشی سے "ہاں "میں سر ہلایا۔
"تمھارا شوہر کہاں ہے؟"
چند لمحوں بعد وہ بولی "چھوڑ گیا۔"
"تم ہیرا منڈی کیسے گئی تم مجھے ناچنے گانے والی تو نہیں لگتی؟"
اب وہ نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتی ہوئی بولی، "سیٹھ جی قسمت وہاں لے گئی۔ گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ایک بیمار ماں اور بچے کی ذمہ داری تھی۔ کہیں اور کام نہیں ملا تو ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا"یہ راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے تک نائیکہ نے ناچ گانا سکھایا اور پھر دھندے پر بیٹھا دیا۔۔ وہ مجھے مجرا کرنے کے روزانہ دو سو روپے دیتی ہے اور ساتھ میں تماش بینوں کا بچا کھچا کھانا، جو میں گھر لا کے اپنی ماں کو کھلاتی ہوں اور خود بھی کھاتی ہوں۔ برقعے میں آتی جاتی ہوں جس سے محلے میں کسی کو پتہ نہیں چلتا اور اک بھرم قائم ہے۔ سیٹھ جی، ایسی کتنی ہی بے سہارا گمنام لڑکیاں معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کوٹھوں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ آپ لوگوں کو کیا پتہ وہ کتنی مجبور ہو کر یہ قدم اٹھاتی ہیں ۔ کوئی لڑکی اپنی خوشی سے یوں سب کے سامنے اپنا جسم، اپنی عزت نیلام نہیں کرتی۔ جو لڑکیاں اک بار اس دلدل میں گر پڑتی ہیں پھر وہ دھنستی ہی چلی جاتی ہیں ۔ اور پھر اس میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتی ہیں۔" یہ سب کچھ بتاتے ہوئے افشاں کے لہجے میں بے بسی اور بے چارگی تھی جیسے وہ کسی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہو۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر پرس سے چند نوٹ نکالے اور اسکے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا "کل اپنی ماں کی تدفین کروا لینا اور بچے کے لیے کچھ خوارک اور گھر کے لیے راشن پانی لے لینا۔"
وہ اتنے سارے نوٹ ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئی۔
"کیا ہوا؟" میں نے اس کو یوں چپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"سیٹھ جی مجھے ان روپوں کے بدلے کیا کرنا ہو گا؟" وہ ڈرتے ڈرتے پوچھ رہی تھی۔ شاید یہ سوچ رہی تھی کہ ان نوٹوں کے بدلے سیٹھ پتہ نہیں کب تک اس کا جسم نوچے گا؟ کب تک اس کو سیٹھ کی رکھیل بن کر رہنا پڑے گا؟
اس کی بات سن کر مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ میں خواہش کرنے لگا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ مجھے احساس ہوا کہ میں ذلت اور اپنے کردار کی پستی کی آخری حد کو چھو رہا تھا۔ میں اس بے حس معاشرہ میں ایک تنہا اور بے سہارا لڑکی کی مدد کر رہا تھا مگر وہ اس کو بھی ایک ڈیل کے طور پر سمجھ رہی تھی۔ شاید جہاں سے میں اٹھ کر آیا تھا وہاں پر جانے والے لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے مدد کی توقع نہیں کی جاتی۔
میں نے لرزتی آواز میں جواب دیا، "تمھیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اور تم اب کوٹھے پر مجرا کرنے نہیں جاؤ گی۔ اپنے گھر میں رہو گی۔ ہر مہینے تمھیں منی آرڈر مل جایا کرے گا۔ تم نے کرنا بس یہ ہے کہ یہ جو بچہ تمھاری گود میں ہے اس کی تربیت ایسے کرو کہ یہ اک دن بڑا ہو کر تمھارا سہارا بن سکے ۔ یہ جو رقم میں بجھواؤں گا یہ تم پر قرض ہے اور جب تمھارا بیٹا جوان ہو جائے گا، ایک قابل انسان بن جائے گا تو تم مجھے واپس کر دینا۔افشاں حیران پریشان کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس انسان کو جس کے سامنے ابھی وہ ناچ کر آئی تھی وہ اس سے ایسی باتیں کر رہا تھا۔ پھر وہ بے آواز رو پڑی۔ مجھے سے وہاں رکا نہیں گیا۔ میں نے افشاں کے گھر کا پتہ لیا اور اس کو اپنا کیا وعدہ یاد دلا کر وہاں سے رخصت ہو گیا۔
سارے راستے میں یہی سوچتا رہا۔ "مجھے تم سے کچھ نہیں چاہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئے افشاں۔جو تم نے مجھے دیا ہے میں اس کا احسان ساری عمر نہیں اتار پاؤں گا۔ تم نے مجھ میں دفن اس انسانیت کو جگا دیا جو میں دولت اور شیطانی ہوس کے نیچے دبا کر مار چکا تھا۔ تم نے مجھے پھر سے انسان بنایا ہے افشاں۔"اس واقعے کے بعد میں ان تمام برے کاموں سے توبہ کر کے اس کی بارگاہ میں گناہوں کا بوجھ لیے حاضر ہوا۔ ہر روز اس کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا، اس سے معافی کی درخواست کرتا۔میں باقاعدگی سے ہر ماہ "افشاں" کو منی آڈر بجھواتا رہا۔ کئی دفعہ دل کیا میں اس مسیحا کو مل کر آؤں جس کی وجہ سے مجھے ان تمام گناہوں اور بدکاریوں سے نجات ملی۔ مگر ہر دفعہ اک شرمندگی آڑے آتی رہی کہ کبھی میں اپنی شیطانی ہوس کے لیے اس کا پیاسا تھا۔ اور پھر وقت گزرتا چلا گیا دن مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ مگر میں افشاں کو بھولا نہیں تھا۔ وہ بھی میری طرح بوڑھی ہو گئی ہو گی۔ اور اس کا بیٹا بھی جوان ہو گیا ہو گا۔ پتہ نہیں کسی قابل بنا ہو گا۔ اپنی ماں کا سہارا بنا ہو گا کہ نہیں؟
میرے بچے جوان ہو گئے تھے۔ زندگی اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل چل رہی تھی۔ ایک شام چھٹی کے دن جب میں اپنے گھر میں موجود تھا تو ملازم نے آکر مجھے بتایا کہ ایک عورت اور اسکے ساتھ ایک جوان لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔
"کون ہیں؟"
"معلوم نہیں صاحب پہلی بار ان کو دیکھا ہے۔" ملازم نے مودبانہ لہجے میں جواب دیا۔
"اچھا انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آرہا ہوں۔"
کون ہو سکتا ہے یہی سوچتے ہوئے میں ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا۔
ایک عورت پرنور چہرہ کے ساتھ سفید بڑی چادر میں خود کو چھپائے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانی سی ڈائری لیے کھڑی تھی۔ اور اس کے ساتھ اچھے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑا ہینڈسم نوجوان کھڑا تھا۔ اس لڑکے کو میں جانتا تھا وہ ہمارے علاقے کا نیا ڈی ایس پی احمد تھا۔
"سلام سیٹھ جی میں افشاں ہوں اور یہ میرا بیٹا احمد ۔"
جونہی اس نے افشاں کا نام لیا میرے ذہن میں اسکا ماضی کا چہرہ گھوم گیا۔ اور پھر مجھے پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ وہ افشاں تھی۔
" آپ مجھے پہچان گئے ناں؟"
میں نے سر ہلاتے ہوئے "ہاں" میں جواب دیا اور ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔افشاں پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر بولی۔ "احمد بیٹا یہی ہیں میرے مسیحا جن کی بدولت تمھاری ماں گندگی کی دلدل میں گرتے گرتے نکلی اور یہی ہیں جو تمھاری پڑھائی کا تمھیں یہاں اس مقام تک لانے کا ذریعہ ہیں ۔"
" میں انکو جانتا ہوں امی جان ان کا شمار علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا ہے ۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس مقام پر لانے میں انکا کردار سب سے اہم ہے۔"
"سیٹھ صاحب جس طرح آپ ہم بے سہارا اور بے کس لوگوں کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے اس کا احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے ۔" احمد بڑی مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا بڑی عاجزی سے بول رہا تھا۔
"ایسے کہہ کر آپ لوگ مجھے شرمندہ مت کریں۔"
میں نے افشاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج اسکو پکارتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے افشاں بہن نکل گیا۔ میں خود حیران تھا مگر یہ سچ تھا۔افشاں صوفے سے اٹھی اور آگے بڑھ کر پرانی سی ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگی، "سیٹھ جی اس میں وہ تمام حساب درج ہے ۔۔ میری ماں کی تدفین سے لے کر آپ کے آخری منی آڈر تک۔ میں نے اک اک پائی کا حساب رکھا۔ آپ کے دیے پیسوں کا امانت کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے بیٹے کو ایک قابل انسان بنایا۔ آپ نے مجھے بائیس سال پہلے کہا تھا کہ یہ قرض ہے اور یہ تب واپس کرنا جب تمھارا بیٹا ایک قابل انسان بن جائے۔"
کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد افشاں پھر سے بولی، "سیٹھ جی آج وہ وقت آگیا ہے۔ میں آپ کے احسانوں کا بوجھ تو میں نہیں اتار سکتی مگر جو پیسے آپ نے مجھے دئیے تھے میرا بیٹا وہ ضرور اتارے گا۔ اور آپ سے درخواست ہے آپ انکار مت کریں۔"میں افشاں کو بڑی تحسین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آخر اس نے وہ کر ہی دکھایا۔ یقیناً قول و قرار کو نبھانا، وعدہ پر قائم رہنا اک اچھے کردار کے حامل انسان کی بڑی نشانی ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل میں اسکی عزت اور احترام اور بڑھ گیا۔
"میں نے تم کو بہن کہا ہے افشاں بہن۔ اور میں کیسے تم سے یہ پیسے واپس لے سکتا ہوں۔ مجھے یوں شرمندہ مت کرو۔"
میرے رکے رکے الفاظ میں پیسے نہ لینے کی معذرت چھپی تھی۔ مگر وہ بضد تھی۔ مجھے اس کے سامنے ہار ماننا پڑی اور وہ تمام پیسے جو میں اسکو منی آڈر کی صورت میں بھیجتا تھا اس کو واپس لینے کی حامی بھرنی پڑی۔ پھر وہ دونوں مجھے اپنے نئے گھر کا پتہ دے کر اور آنے کی تاکید کر کے وہاں سے چلے گئے۔
"ارم میں نے تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو گی۔؟ " شام کو میں نے اپنی بیگم سے کہا۔
"کیوں نہیں چلوں گی۔ مگر کون ہے؟ اور کس سلسلے میں ملنا ہے؟" بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
"میں نے روبی بیٹی کے لیے ایک لڑکا پسند کیا ہے ۔ تم مل لو اگر تم کو پسند آجائے تو پھر اس کے بعد روبی سے بات کر لینا۔" میں نے مختصر لفظوں میں اسے وجہ بتائی۔
اگلے دن میں اور میری بیگم ارم ناز افشاں کے گھر میں تھے۔ ارم کو بھی احمد بہت پسند آیا۔ ہم نے پھر افشاں سے احمد اور روبی کے رشتے کی بات کی۔ افشاں کو بھلا اس سے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ پھولے سے نہیں سما رہی تھی۔ اور یوں میری بیٹی کا رشتہ افشاں کے بیٹے احمد سے طے ہو گیا۔ وہ تعلق جو اک طوائف اور تماش بین جیسے گندے رشتے سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام ایک نہایت مہذب رشتے کی شکل میں ہوا۔یہ سچ ہے کہ ہر انسان کو قدرت سدھرنے کا موقعہ ضرور دیتی ہے۔ کبھی گندگی کے ڈھیر سے اس کو ایسا سبق سیکھا دیتی ہے، کبھی دو بھٹکے لوگوں ملا کر سیدھے راہ پر لے آتی ہے اور انسان ساری زندگی اسی کے مطابق گزارنے کو فخر محسوس کرتا ہے۔ کبھی وہ طوائف اور میں تماش بین تھا۔ مگر آج وہ میری منہ بولی بہن اور اس کا بیٹا میری بیٹی کا شوہر ہے۔ اور مجھے ان دونوں رشتوں پر فخر ہے۔

    Blogger news

    Blogroll

    About