Tuesday, October 22, 2013

ہیرو
ایک صاحب اپنے سات یا آٹھ سالہ بچے کو موٹر بائیک کے آگے بیٹھا کر تیزی سے سڑک کا موڑ کاٹتا ہے کہ یکا یک سامنے سے ایک گاڑی والا آجاتا ہے ۔۔ موٹر سائیکل والا بہت تیز تھا لیکن گاڑی والے نے بہت ہمت کر کے اپنی گاڑی کو بریک لگائی ، پھر بھی اس ایمرجنسی بریک میں بائیک والے کی ایک ٹانگ پر ہلکی سی خراش آئی اور وہ گرتے گرتے بال بال بچا ، ١٠ قدم پر جاکر اُس نے بائیک روک لی بچے کو وہیں بیٹھا رہنے دیا ) جو قدرے خوف ذدہ ہو گیا تھا ، اور نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا والد اُسے چھوڑ کر جائے ( ۔۔ بائیک والے نے آتے ہی گاڑی والے کے گریبان کو پکڑ کر اُسے گاڑی سے باہر نکالا ،، اور اُسے گالی گلوچ کرنے لگ گیا ۔۔۔۔ گاڑی والا جو بہت دھیما بھلا مانس انسان لگ رہا تھا ، اُس بائیک والے سے کہنے لگا ۔۔““ غلطی تمہاری ہے ، تمہیں موڑ کاٹتے ہوئے بائیک کو آہستہ کرنا چاہے تھا ،، پھر بھی میں تم سے اُلجھنا نہیں چاہتا ۔۔

لیکن بائیک والا اُس سے لڑنے پر بضد تھا ۔۔۔ آخر کار گاڑی والے نے معاملہ ختم کرنے کے لئے وہ جملہ کہا جس نے معاشرتی اقدار میں پلتی ہماری نئی نسلوں کے زہنوں کا احاطہ کیا ہواہے ۔۔

““ دیکھو تمہارا بچہ تمہیں بڑے معصوم انداز سے دیکھ رہا ہے ۔۔ تم مجھ سے الجھو گے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچے گی ، میں اکیلا ہوں مجھے میرا کوئی نہیں دیکھ رہا ، لیکن تمہارے ساتھ تمہارا بچہ ہے اگر اُس نے آج تمہیں مجھ سے مارکھاتا دیکھ لیا تو اُس کے دل میں تمہارے لئے ““ہیرو “ کا کردار ختم ہو جائے گا ۔۔

اُس کی سوچ کہ تم اُس زندگی میں سب سے بڑا سہارا ہو ختم ہو جائے گی ، جو اس کے بچپن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔۔۔““

بائیک والے کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اُس نے گاڑی والے کے کپڑے جھاڑتے ہوئے معافی مانگی اور واپس بائک پر آکر اپنے بچے کو پیار کرنے لگا ““ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ““

اس دانشمندی سے اُس بائیک والے نے بچے کے دل میں ““ ہیرو ““ کو مرنے نہیں دیا ۔

0 comments:

Post a Comment

    Blogger news

    Blogroll

    About